۱
سیاہ پیڑ ہیں اب آپ اپنی پرچھائیں
زمیں سے تا مہ و انجم سکوت کے مینار
جدھر نگاہ کریں اک اتھاہ گم شدگی
اک ایک کر کے فسردہ چراغوں کی پلکیں
جھپک گئیں جو کھلی ہیں جھپکنے والی ہیں
جھلک رہا ہے پڑا چاندنی کے درپن میں
رسیلے کیف بھرے منظروں کا جاگتا خواب
فلک پہ تاروں کو پہلی جماہیاں آئیں
۲
تمولیوں کی دوکانیں کہیں کہیں ہیں کھلی
کچھ اونگھتی ہوئی بڑھتی ہیں شاہراہوں پر
سواریوں کے بڑے گھنگھروؤں کی جھنکاریں
کھڑا ہے اوس میں چپ چاپ ہر سنگار کا پیڑ
دلہن ہو جیسے حیا کی سگندھ سے بوجھل
یہ موج نور یہ بھرپور یہ کھلی ہوئی رات
کہ جیسے کھلتا چلا جائے اک سفید کنول
سپاہ روس ہے اب کتنی دور برلن سے
جگا رہا ہے کوئی آدھی رات کا جادو
چھلک رہی ہے خم غیب سے شراب وجود
فضائے نیم شبی نرگس خمار آلود
کنول کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ
۳
یہ رس کا سیج یہ سکمار یہ سکومل گات
نین کمل کی جھپک کام روپ کا جادو
یہ رسمسائی پلک کی گھنی گھنی پرچھائیں
فلک پہ بکھرے ہوئے چاند اور ستاروں کی
چمکتی انگلیوں سے چھڑ کے ساز فطرت کے
ترانے جاگنے والے ہیں تم بھی جاگ اٹھو
۴
شعاع مہر نے یوں ان کو چوم چوم لیا
ندی کے بیچ کمدنی کے پھول کھل اٹھے
نہ مفلسی ہو تو کتنی حسین ہے دنیا
یہ جھائیں جھائیں سی رہ رہ کے ایک جھینگر کی
حنا کی ٹیٹو میں نرم سرسراہٹ سی
فضا کے سینے میں خاموش سنسناہٹ سی
یہ کائنات اب اک نیند لے چکی ہوگی
۵
یہ محو خواب ہیں رنگین مچھلیاں تہہ آب
کہ حوض صحن میں اب ان کی چشمکیں بھی نہیں
یہ سرنگوں ہیں سر شاخ پھول گڑہل کے
کہ جیسے بے بجھے انگارے ٹھنڈے پڑ جائیں
یہ چاندنی ہے کہ امڈا ہوا ہے رس ساگر
اک آدمی ہے کہ اتنا دکھی ہے دنیا میں
۶
قریب چاند کے منڈلا رہی ہے اک چڑیا
بھنور میں نور کے کروٹ سے جیسے ناؤ چلے
کہ جیسے سینۂ شاعر میں کوئی خواب پلے
وہ خواب سانچے میں جس کے نئی حیات ڈھلے
وہ خواب جس سے پرانا نظام غم بدلے
کہاں سے آتی ہے مدمالتی لتا کی لپٹ
کہ جیسے سیکڑوں پریاں گلابیاں چھڑکائیں
کہ جیسے سیکڑوں بن دیویوں نے جھولے پر
ادائے خاص سے اک ساتھ بال کھول دیئے
لگے ہیں کان ستاروں کے جس کی آہٹ پر
اس انقلاب کی کوئی خبر نہیں آتی
دل نجوم دھڑکتے ہیں کان بجتے ہیں
۷
یہ سانس لیتی ہوئی کائنات یہ شب ماہ
یہ پر سکوں یہ پراسرار یہ اداس سماں
یہ نرم نرم ہواؤں کے نیلگوں جھونکے
فضا کی اوٹ میں مردوں کی گنگناہٹ ہے
یہ رات موت کی بے رنگ مسکراہٹ ہے
دھواں دھواں سے مناظر تمام نم دیدہ
خنک دھندلکے کی آنکھیں بھی نیم خوابیدہ
ستارے ہیں کہ جہاں پر ہے آنسوؤں کا کفن
حیات پردۂ شب میں بدلتی ہے پہلو
کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو
زمانہ کتنا لڑائی کو رہ گیا ہوگا
مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہوگا
۸
گلوں نے چادر شبنم میں منہ لپیٹ لیا
لبوں پہ سو گئی کلیوں کی مسکراہٹ بھی
ذرا بھی سنبل ترکی لٹیں نہیں ہلتیں
سکوت نیم شبی کی حدیں نہیں ملتیں
اب انقلاب میں شاید زیادہ دیر نہیں
گزر رہے ہیں کئی کارواں دھندلکے میں
سکوت نیم شبی ہے انہیں کے پاؤں کی چاپ
کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو
۹
نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا
نئے ستارے نئی گردشیں نئے دن رات
زمیں سے تا بہ فلک انتظار کا عالم
فضائے زرد میں دھندلے غبار کا عالم
حیات موت نما انتشار کا عالم
ہے موج دود کہ دھندلی فضا کی نبضیں ہیں
تمام خستگی و ماندگی یہ دور حیات
تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات
یہ سرد سرد یہ بے جان پھیکی پھیکی چمک
نظام ثانیہ کی موت کا پسینا ہے
خود اپنے آپ میں یہ کائنات ڈوب گئی
خود اپنی کوکھ سے پھر جگمگا کے ابھرے گی
بدل کے کیچلی جس طرح ناگ لہرائے
۱۰
خنک فضاؤں میں رقصاں ہیں چاند کی کرنیں
کہ آبگینوں پہ پڑتی ہے نرم نرم پھوار
یہ موج غفلت معصوم یہ خمار بدن
یہ سانس نیند میں ڈوبی یہ آنکھ مدماتی
اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کے سو جاؤ
یہ پلکیں بند کرو اور مجھ میں کھو جاؤ
نظم
آدھی رات
فراق گورکھپوری