EN हिंदी
آدھا کمرہ | شیح شیری
aadha kamra

نظم

آدھا کمرہ

سارا شگفتہ

;

اس نے اتنی کتابیں چاٹ ڈالیں
کہ اس کی عورت کے پیر کاغذ کی طرح ہو گئے

وہ روز کاغذ پہ اپنا چہرہ لکھتا اور گندہ ہوتا
اس کی عورت جو خاموشی کاڑھے بیٹھی تھی

کاغذوں کے بھونکنے پر سارتر کے پاس گئی
تم راںؔ بو اور فرائڈؔ سے بھی مل آئے ہو کیا

سیفوؔ میری سیفوؔ میرابائیؔ کی طرح مت بولو
میں سمجھ گئی اب اس کی آنکھیں

کیٹسؔ کی آنکھیں ہوئی جاتی ہیں
میں جو سوہنی کا گھڑا اٹھائے ہوئے تھی

اپنا نام لیلیٰ بتا چکی تھی
میں نے کہا

لیلیٰ مجمع کی باتیں میرے سامنے مت دہرایا کرو
تنہائی بھی کوئی چیز ہوتی ہے

شیکسپئیر کے ڈراموں سے چن چن کر اس نے ٹھمکے لگائے
مجھے تنہا دیکھ کر

سارتر فرائڈؔ کے کمرے میں چلا گیا
وہ اپنی تھیوری سے گر گر پڑتا

میں سمجھ گئی اس کی کتاب کتنی ہے
لیکن بہر حال سارتر تھا

اور کل کو مجمع میں بھی ملنا تھا
میں نے بھیڑ کی طرف اشارہ کیا تو بولا

اتنے سارے سارتروں سے مل کر تمہیں کیا کرنا ہے
اگر زیادہ ضد کرتی ہو تو اپنے وارث شاہؔ

ہیر سیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیں
سارتر سے استعارہ ملتے ہی

میں نے ایک تنقیدی نشست رکھی
میں نے آدھا کمرہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا

سو پہلے آدھے فرائڈؔ کو بلایا
پھر آدھے راںؔ بو کو بلایا

آدھی آدھی بات پوچھنی شروع کی
جان ڈنؔ کیا کر رہا ہے

سیکنڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے
چوروں سے سخت نالاں ہے

دانتےؔ اس وقت کہاں ہے
وہ جہنم سے بھی فرار ہو چکا ہے

اس کو شبہ تھا
وہ خواجہ سراؤں سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتا

اپنے پس منظر میں
ایک کتا مسلسل بھونکنے کے لیے چھوڑ گیا ہے

اس کتے کی خصلت کیا ہے
بیاترؔچے کی یاد میں بھونک رہا ہے

تمہارا تصور کیا کہتا ہے
سارتروں کی تصور کے لحاظ سے

اب اس کا رخ گوئٹےؔ کے گھر کی طرف ہو گیا ہے
باقی آدھے کمرے میں کیا ہو رہا ہے

لڑکیاں
کیا حرف چن رہی ہیں

استعارے کے لحاظ سے
حرام کے بچے گن رہی ہیں

لڑکیوں کے نام قافیے کی وجہ سے
سارتر زیادہ نہیں رکھ پا رہا ہے

اس لیے ان کی غزل چھوٹی پڑ رہی ہے
زمین کے لحاظ سے نقاد

اپنے کمروں سے اکھڑنے کے لیے تیار نہیں
لیکن انہوں نے وعدہ کیا ہے

سارے تھنکر اکٹھے ہوں گے
اور بتائیں گے کہ سوسائٹی کیا ہے

اور کیوں ہے
ویسے ہواؤں کا کام ہے چلتے پھرتے رہنا

دور اندیش کی آنکھ کیسی ہے
سگریٹ کے کش سے بڑی ہے

وہ گھڑے سے پتھر نکال کر گن رہے تھے
اور کہہ رہے تھے میں اس گھڑے کا بانی ہوں

چائے کے ساتھ غیبت کے کیک
ضروری ہوتے ہیں

اور چغلخوری کی کتاب کا دیباچہ
ہر شخص لکھتا ہے

زبانوں میں بجھے تیروں سے مقتول زندہ ہو رہے ہیں
بڑا ابلاغ ہے

سوسائٹی کے چہرے پہ وہ زبان چلتی ہے
کہ ایک ایک بندے کے پاس

کتابوں کی ریاست بندے سے زیادہ ہے
ریاست میں

مہارانیوں کے قصے گھڑنے پر
علم کی بڑی ملتی ہے

بل کے سادہ کاغذ پر
علم لکھ دیا جاتا ہے

تازہ دریافت پر
ہر فرد کی مٹھی گرم ہوتی ہے

پہلے یہ بتاؤ جھجھنے کی تاریخ پیدائش کیا ہے
میں کوئی نقاد ہوں جو تاریخ دہراتا پھروں

کسی کا کلام پڑھ لو
تاریخ معلوم ہو جائے گی

تمہاری آنکھوں میں آنسو
میرؔ کی کتاب کا دیباچہ لکھنا ہے

یہ کس کی پٹی ہے
نقاد بھائی کی

یہ کس کی آنکھ ہے
مجھے تو سیفوؔ بھابھی کی معلوم ہو رہی ہے

اور یہ ہاتھ
غالب کا لگتا ہے

بکتے ہو
زر کی امان پاؤں تو بتاؤں

جتنے نام یاد تھے بتا دیئے
لیکن تمہارا تصور کیا کہتا

میں دم ہلانے کے سوا کیا کر سکتا ہوں