آسمانوں سے اتری
اجنبی مخلوق
یا خود کلامی میں
میں ڈوبی صدائے بازگشت
ہنستا گاتا
پرندہ آوارہ
دہکتے خوابوں میں
جلتا پیکر
یا ادھ کھلے
دروازوں سے جھانکتا
معصوم بالک
بے نام جزیروں کے
اندھے کنوؤں سے
نکلنے کی کوشش ناکام میں
ان دیکھے
ہزار جگنوؤں
کے تعاقب میں دوڑتا
ہانپتا کانپتا
آدھا آدمی
جو کبھی
اپنا دل چیر کے
ندی کے بچھڑتے ہوئے
دو کناروں پر
دفن کر آیہ تھا
اور اب ان دونوں
کناروں پر کھڑا
اترتی بوندوں کے موسم میں
دن چڑھے
اپنے ہی پگھلتے پنجر
کا استقبال کرتا ہے
نظم
آدھا آدمی
قیصر عباس