فریب کھائے ہیں رنگ و بو کے سراب کو پوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں
جو دل کی گہرائیوں میں صبح ظہور آدم سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خدا داد قوتوں کو جگا رہا ہوں
میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
ٹھہر ذرا گرم رو زمانے کہ میں ترے ساتھ آ رہا ہوں
جہاز رانوں کو بھی تعجب ہے میرے اس عزم مطمئن پر
کہ آندھیاں چل رہی ہیں تند اور میں اپنی کشتی چلا رہا ہوں
طلسم فطرت بھی مسکراتا ہے میری افسوں طرازیوں پر
بہت سے جادو جگا چکا ہوں بہت سے جادو جگا رہا ہوں
یہ مہر تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
مرا تخیل مرے ارادے کریں گے فطرت پہ حکمرانی
جہاں فرشتوں کے پر ہیں لرزاں میں اس بلندی پہ جا رہا ہوں
یہ وہ گھروندے ہیں جن پہ اک دن پڑے گی بنیاد قصر جنت
نہ سمجھیں سکان بزم عصمت کہ میں گھروندے بنا رہا ہوں
یہ ناز پروردگان ساحل ڈریں ڈریں مری گرم رو سے
کہ میں سمندر کی تند موجوں کو روندتا پاس آ رہا ہوں
نظم
آدم نو کا ترانۂ سفر
جمیلؔ مظہری