وہ دستکیں
جو تمہاری پوروں نے ان دروں میں انڈیل دی ہیں
وہ آج بھی
ان کے چوب ریشوں میں جاگتی ہیں
تمہارے قدموں کی چاپ
چپ ساعتوں میں بھی
ایک ایک ذرے میں بولتی ہے
تمہارے لہجے کے میٹھے گھاؤ سے
آج بھی
میرے گھر کا کڑیل چٹان سینہ چھنا ہوا ہے
کوئی نہ جانے
کہ ہنستے بستے گھروں کے اندر بھی
گھر بنے ہیں
جہاں مقفل ہیں بیتے لمحے
صبیح دن
اور ملیح راتیں
یہ واقعہ ہے
کہ جو علاقہ تمہارے جلووں کی زد میں آیا
اجڑ گیا ہے
اجاڑ آنگن تمہاری پہچان ہیں
یہاں
لوگ خود کو کیسے شناختیں گے
نظم
آباد ویرانیاں
وحید احمد