EN हिंदी
آب و گل | شیح شیری
aab o gil

نظم

آب و گل

شاذ تمکنت

;

مجھے یاد پڑتا ہے اک عمر گزری
لگاوٹ کی شبنم میں لہجہ ڈبو کر

کوئی مجھ کو آواز دیتا تھا اکثر
بلاوے کی معصومیت کے سہارے

میں آہستہ آہستہ پہنچا یہاں تک
بہ ہر سمت انبوہ آوارگاں تھا

بڑے چاؤ سے میں نے اک اک سے پوچھا
''کہو کیا تم ہی نے پکارا تھا مجھ کو

کہو کیا تم ہی نے پکارا تھا مجھ کو''
مگر مجھ سے انبوہ آوارگاں نے

ہراساں ہراساں پریشاں پریشاں
کہا صرف اتنا ''نہیں وہ نہیں ہم

ہمیں بھی بلا کر کوئی چھپ گیا ہے''