میں بہت خوش ہوں کہ اس درجہ ملی دولت غم
اتنی دولت کہ گنی جائے نہ رکھی جائے
اور پھر کس کو خبر اس کی مگر میرے سوا
اس کا مالک بھی نہیں کوئی مگر میرے سوا
اور دولت بھی یہ ایسی کہ کہیں بیش بہا
ایک اک موتی کا ہے رنگ الگ شان جدا
کیوں نہ ہو کتنے ہی سالوں کی کمائی ہے یہ
صرف میری نہیں پشتوں کی کمائی ہے یہ
چھوڑی اجداد نے اولاد کی باری آئی
اور اولاد بھی اولاد کو دیتی آئی
کچھ کمی آئی نہ اس میں کسی موسم کسی سال
بے حساب ہو کے یہ بڑھتی رہی بڑھتی ہی رہی
میں بہت خوش ہوں کہ اس درجہ ملی دولت غم
میرے اجداد میں بھی مجھ سا نہ تھا کوئی امیر
میری دولت کے مقابل ہیں وہ سب لوگ فقیر
میں بہت خوش ہوں کہ اس درجہ ملی دولت غم
بھولتا ہی نہیں میں اپنی امیری کا غرور
میرے اجداد امیر اور میں امیر ابن امیر
رشک سے ہائے مگر اس پہ مرا جاتا ہوں
کہ نہ بڑھ جائے کہیں رتبہ اولاد امیر
رشک آتا ہے بہت ان پہ نصیبے دارد
نظم
ورثہ
داؤد غازی