دن جو کہتا ہے مت سن
دھوپ کاندھوں پر اٹھانے سے بھی ہٹ جا
ڈھیر سے غصے کو اپنی مٹھیوں میں بھر کے لے آ
شہر بھر کے منہ پہ مل دے
ہر طرف کالک ہی کالک پوت دے دیوار و در پر
دن کے سب آثار ڈھا دے
نوچ لے آکاش سے جلتے ہوئے خورشید کو
دھوپ کی چادر کو کر دے تار تار
اور پھر گھر آ کے ہو جا بے لباس
بند ہو جا گھر کی اندھی کوٹھری میں
بند رہ لمبے سمے تک
جب تلک سورج ترے اپنے ہی کالے غار سے
باہر نہ جھانکے بند رہ
دھوپ جب تک کوڑھ کی صورت ترے کالے بدن کو
پھوڑ کر باہر نہ نکلے بند رہ
جب تلک غصے کا کالا جھاگ تجھ میں کھو نہ جائے
بند رہ بند رہ لمبے سمے تک
یہ غلط فہمی کہ تیرے بند رہنے سے
یہاں کچھ کم ہوا ہے بھول جا
بھیڑ کے اتنے بڑے جنگل میں
کب کچھ کم ہوا ہے
نظم
آ کے ہو جا بے لباس
فضل تابش