وہ جا رہی ہیں سروں پہ پتھر
اٹھائے مزدور عورتیں کچھ
یہ کھردرے ہاتھ میلے پاؤں
جمی ہیں ہونٹوں پہ پپڑیاں سی
اور پسینے میں ہیں شرابور
سلگتی دوپہر میں وہ مل کر
ایک دیوار چن رہی ہیں
حصار سنگیں بنے گا کوئی
یہ دیکھ کر حال ان کا مجھ کو
خیال رہ رہ کے آ رہا ہے
کہاں ہیں وہ مرمریں سی باہیں
وہ گدگدے ہاتھ نرم و نازک
وہ گیسوئے عنبریں و مشکیں
وہ تیر مژگاں کمان ابرو
وہ لعل لب اور وہ روئے زیبا
وہ نازنیں عورتیں کہاں ہیں
وہ مہ جبیں عورتیں کہاں ہیں
وہ جن کی تعریف کرتے کرتے
ادیب و شاعر نہیں ہیں تھکتے
نظم
مزدور عورتیں
فخر زمان