آنکھ ہنسی
پھر کالی کلوٹی رات ہنسی
پھر رات کا پنچھی
پھڑ پھڑ کرتا
میرے اوپر منڈلایا
اور ننگے مست پہاڑ نے یک دم
آنکھ جھکا کر
بھاری پتھر لڑھکایا
وہ پتھر دوسرے پتھر سے ٹکرا کر ٹوٹا
لڑھک گیا
پھر اس کے سخت نکیلے ٹکڑے
لاکھوں لڑھکتے ٹکڑوں کا سیلاب بنے
اور ننگا مست پہاڑ ہنسا
گرداب بڑھا
اور ہنسی کا حلقہ تنگ ہوا
میں کانپ اٹھا
میں ڈرنے لگا
تب میں نے اچانک
پھیلے ہوئے آکاش کی جانب
رحم طلب نظروں سے دیکھا
تاروں نے آکاش کو چھلنی کر ڈالا تھا
چاند ادھڑتی ہنسی کا فوارہ سا بن کر
ناچ رہا تھا
نظم
ہتک
وزیر آغا