EN हिंदी
شرمیلی خاموشی | شیح شیری
sharmili KHamoshi

نظم

شرمیلی خاموشی

ترنم ریاض

;

شام کی شرمیلی چپ کو
روح میں محسوس کرتے

کام میں مصروف ہیں ہم دوپہر سے
دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو

جو بیٹھی ہیں خموشی سے
کئے خم گردنیں اپنی

کسی دلہن کی صورت
سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری

ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں
ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے ہیں