شام کی شرمیلی چپ کو
روح میں محسوس کرتے
کام میں مصروف ہیں ہم دوپہر سے
دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو
جو بیٹھی ہیں خموشی سے
کئے خم گردنیں اپنی
کسی دلہن کی صورت
سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری
ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں
ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے ہیں
نظم
شرمیلی خاموشی
ترنم ریاض