عجب رات ہے حد نگاہ تک ہر سو
اتھاہ زہر بھری چاندنی کی جھیل سی ہے
ورائے مد نظر کہر ہے تخیل کی
ورائے حد تخیل سیہ فصیل سی ہے
سماں ہے ہو کا سڑک ہے سڑک کے دونو طرف
قطار تا بہ افق ہے گھنے درختوں کی
ہوا سنکتی ہے تو چونک چونک پڑتی ہیں
ہر ایک پیڑ میں روحیں سی تیرہ بختوں کی
کچھ ایسے گھور کے بس گھولتے ہیں سناٹے
ہوا کے زور سے جب ٹہنیاں الجھتی ہیں
دھوئیں سے رینگتے ہیں تہ بہ تہ خیالوں میں
سکوت چیختا ہے سیٹیاں سی بجتی ہیں
نظر اٹھاتا ہوں تو زاویے نگاہوں میں
اٹھا کے دھول سرابوں کی جھونک دیتے ہیں
قدم بڑھاتا ہوں تو اژدہے ہیولوں کے
پھنوں کے تیر کف پا میں ٹھونک دیتے ہیں
جو سانس لیتا ہوں تو سانس سانس کی لو پر
تفکرات کی آندھی سی چلنے لگتی ہے
جو سوچتا ہوں تو احساس کے محلکوں تک
سیاہیوں کی غلاظت اچھلنے لگتی ہے
دل و نگاہ پہ کتنی مہیب تیزی سے
کچھ الجھنوں کے سیہ ناگ رینگ آئے ہیں
قدم قدم پہ ہے کتنی عمیق فکر کی لو
قدم قدم پہ مری رہ میں کتنے سائے ہیں
متاع زیست مری لاکھ ہیچ مایہ سہی
مگر ستارے فلک کے نہ جانے کیوں یوں ہی
اداس اداس نگاہوں سے مجھ کو تکتے ہیں
بھلا یہ سائے مری راہ روک سکتے ہیں

نظم
2 قہقہہ
تخت سنگھ