EN हिंदी
وہ جس کا انتظار تھا | شیح شیری
wo jis ka intizar tha

نظم

وہ جس کا انتظار تھا

زاہدہ زیدی

;

وہ جس کا انتظار تھا
شفق کو

بادلوں کو
رہ گزر کو آبشار کو

خزاں کی پتیوں کو
چاندنی کو

دھوپ کو بہار کو
وہ جس کی آرزو تھی

ساعتوں کو
خامشی کو

ذہن کو خیال کو
تصور محال کو

کھنکتی پیالیوں کو
کرسیوں کو

جام مے کو شمع ناتمام کو
دوپہر کو شام کو

وہ جس کی آہٹیں
سماعتوں کے کنج میں نہاں تھیں

جس کا عکس
جلوہ ریز تھا

بصارتوں کی جھیل میں
وہ کیا فقط صبا کا سرمگیں خرام تھا

کہ شاخ گل کا سایۂ خفیف تھا
کہ موج آب پر کرن کا ارتعاش تھا

جو ایک پل میں سامنے سے یوں گزر گیا
کہ وہ سبھی جو منتظر تھے

آنکھ ملتے رہ گئے
مگر وہ اس طرح گزر گیا

کہ یک بیک
وہ انتظار کی بساط ہی الٹ گئی

وہ کھیل ختم ہو گیا
اور اس کے بعد

آسمان سے زمیں
زمیں سے آسماں تک

خلا خلا خلا خلا