یہ گھر بہت عظیم تھا
یہ گھر بہت حسین تھا
کہ اس کے ارد گرد دور دور تک
کوئی مکان اس سے بڑھ کے تھا نہیں
مگر یہاں کا چکھ عجب رواج تھا
تھے بن بلائے اجنبی
کہ جن کا گھر پہ راج تھا
سجے سجائے کمرے ان کے شب کدے
وہ سبز لان پھول کی کیاریاں
وسیع صحن و سائباں
تھے ان کے واسطے مگر
خود اپنے گھر میں اجنبی
مکین چوکھٹوں پہ
راتیں اپنی کاٹتے رہے
سڑک گلی کی خاک چھانتے رہے
وہ بن بلائے اجنبی
گدیلے بستروں پہ
لذت شب و سحر میں مست مست تھے
اسی طرح نہ جانے کتنی عمر کاٹنے کے بعد
رفتہ رفتہ
سخت و سرد چوکھٹوں نے
نرم و گرم بستروں کی گدگدی
کا ذائقہ سمجھ لیا
دماغ و دل کی خشک وادیوں میں
آرزو کے آبشار گنگنا اٹھے
سیاہ بخت رات
شعور کے جنون شوق کے چراغ جل گئے
چراغ سے کئی چراغ جل گئے
بہ یک زبان
چوکھٹوں سے یہ مطالبہ ہوا
کہ اجنبی ہمارے گھر کو چھوڑ دیں
یہ گھر ہمارے خون
اور ہماری ہڈیوں سے ہے
یہ بات سن کے شب کدے لرز گئے
تھی چونکنے کی بات ہی
کہ سال خوردہ اندھی چوکھٹوں پہ
روشنی کہاں سے آ گئی
گلی کی خاک
آسماں پہ ابر بن کے چھا گئی
کہاں سے ذہن نارسا میں
بات ایسی آ گئی
وہ اجنبی
نوازشوں عنایتوں سے
ان کا جوش سرد جب نہ کر سکے
تو نت نئی سزاؤں اور دھمکیوں
گلی گلی لہو لہو
سڑک سڑک دھواں دھواں
مگر جنون شوق کی صدا
زمیں سے آسماں
سزائیں سخت تھیں مگر
مطالبہ عزیز تھا
نوازشیں عنایتیں
سزائیں اور دھمکیاں
صدائے حق جنون شوق دامنوں کی دھجیاں
مقابلہ بھی خوب تھا
کہاں زمین حرص
اور کہاں جنوں کا آسماں
مآل کشمکش وہی ہوا
جو ہونا چاہئے
وہ اجنبی چلے گئے
مکین اپنے گھر کو پا کے
اپنے گھر کو پا کے
اپنے گھر میں آ گئے
وہ گھر کے جس کے واسطے
لگا دی اپنی جان بھی
جو مل گیا تو یوں ہوا
کہ جیسے کچھ نہیں ہوا
عجیب ماجرا ہے اب
جنون عشق نے چراغ آرزو جلائے تھے
اسی کی تیز لو سے یہ مکین
اپنے گھر کو شوق سے جلا رہے ہیں
سبز لان میں کیاریوں کے پھول
اپنے پاؤں سے کچھ رہے ہیں
سائبان کے ستون ڈھا رہے ہیں
الغرض
جو آج گھر کا حال ہے
ہمارے پاس لفظ ہی نہیں
کہ ہم بیاں کریں
جو سچ کہو تو آج بھی
یہ گھر بہت حسین ہے
مکین ہی عجیب ہیں
بڑے ہی بد نصیب ہیں
نظم
مکین ہی عجیب ہیں
ظہیر صدیقی