EN हिंदी
نہ میرا نام میرا ہے | شیح شیری
na mera nam mera hai

نظم

نہ میرا نام میرا ہے

مشتاق علی شاھد

;

نہ میرا نام میرا ہے
نہ اس کا روپ اس کا ہے

نہ میری شخصیت میری
نہ اس کا غم فقط اس کا

یہاں جو ہے
فقط سایہ ہے نقطہ ہے

کوئی پھیلا ہوا سایہ
کوئی سمٹا ہوا نقطہ

نقابوں سے ملو لوگو
نقابوں ہی کو جتنے نام دے سکتے ہو

دے ڈالو
نقابیں راستے منزل پھیلتے سائے دیواریں

نقابیں نام چہرے شخصیت احساس کی لہریں