EN हिंदी
شام کی بارش | شیح شیری
sham ki barish

نظم

شام کی بارش

ترنم ریاض

;

کون سے کوہ کی آڑ میں لی خورشید نے جا کر آج پناہ
چو طرفہ یلغار سی کی ہے ابر نے بھی تا حد نظر

دھیمے چلتے کالے بادل اڑتی سی اجلی بدلی
رقصاں رقصاں جھلک دکھا کر رہ جاتی ہے برق کبھی

پتوں کے جھرمٹ میں سائے کجلائے شرمائے سے
پھول حلیمی سے سر خم اور کلیاں کچھ شرمائی سیں

دانستہ بارش میں اڑتے پھرتے آوارہ طائر
یہاں وہاں بیٹھے کتنے بھیگیں چپ چاپ سے خوش ہو کر

بجلی کی مانوس کڑک شہ زور گرج یہ بادل کی
اب کے ہم نے کتنی دھوپیں اس موسم کی راہ تکی