EN हिंदी
عصا بدست اب نہیں ہے کوئی | شیح شیری
asa-ba-dast ab nahin hai koi

نظم

عصا بدست اب نہیں ہے کوئی

ظہیر صدیقی

;

اسرائیل مصر جنگ میں کرنل ناصر کے نعرے
ہم بیٹے فرعون کے سے متأثر ہو کر

یہی وہ کہسار ہیں جہاں
مشت خاک نور آشنا ہوئی تھی

یہی وہ ذرات ریگ ہیں
جو کسی کے بیتاب والہانہ قدم

کی ٹھوکر سے
کہکشاں کہکشاں ہوئے تھے

یہی وہ پتھریلی وادیاں ہیں
کہ جن کی آغوش خشک میں

دو دھڑکتے معصوم دل ملے تھے
اور آج ہر سو

ہے دود بارود کی ردا
جس میں ہر کرن روشنی کی

معدوم ہو گئی ہے
اجاڑ سنگین وادیوں میں

ہوس کا عفریت
گوسفندان‌ ارض مدین کو

کھا گیا ہے
نہ کوئی بنت‌ شعیب ہے

اور نہ رہرو تشنہ ہی ہے کوئی
کنویں کے پاس میں

جوہری زہر گھل گیا ہے
تجلیٔ لم یزل کہاں کی

یہ تیز سنگینوں کی چمک ہے
کلیم ہی جب نہیں ہے کوئی

کلام کیسا
مہیب توپوں کی یہ دھمک ہے

کسی کے معصوم والہانہ قدم کی
یہ کہکشاں نہیں ہے

یہ ریگ ہائے زمین ہی ہیں
جو آہنی اسلحوں کی آتش میں تپ گئے ہیں

سواد ساحل
عصا بدست اب نہیں ہے کوئی

تو معجزہ کیا طلسم کیسا
یہ سطح دریائے نیل گلگو جو ہو گئی ہے

عصا کا اعجاز تو نہیں
یہ ردائے خوں ہے ردائے خوں ہے

یہ خون کس کا ہے
اے دل زود رنج تو کیوں اداس ہے

خیر و شر کی یہ کشمکش نہیں ہے
کہ دونوں جانب ہی

آستین ہوس میں
فرعونیت کے زہریلے اژدہے ہیں

سواد ساحل
عصا بدست اب نہیں ہے کوئی