EN हिंदी
قبرستان میں خود کلامی | شیح شیری
qabristan mein KHud-kalami

نظم

قبرستان میں خود کلامی

زاہد مسعود

;

مرے پاس
موت کے بہت سے آپشنز ہیں

میں کسی بھی وقت کہیں بھی مارا جا سکتا ہوں
موبائل چھیننے والا نوجوان

مجھے ٹخنے پر گولی مار سکتا ہے
پولس کے ناکے پر نہ رکنے کی پاداش میں

مجھے تھانے کے اندر مارا جا سکتا ہے
رات کے پچھلے پہر

گھر میں گھسنے والا ڈاکو کالی جیب ہونے کے جرم میں
مجھے بندوق کے ہٹ مارک سے ہلاک کر سکتا ہے

جی پی فنڈ کے حصول کی خاطر
میں

اے جی آفس کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے
دل کے دورے سے بھی مر سکتا ہوں

اور
کسی گنجان مارکیٹ یا مسجد میں ہونے والے دھماکے میں با آسانی

شہادت پا سکتا ہوں
اب تو

غربت کی لکیر سے لٹک کر
میرے بھوک سے مرنے کے امکانات بھی پیدا ہونے لگے ہیں

اگرچہ جنگ میں کام آنے کا زمانہ گزر چکا ہے
مگر بعض مقدس دشمن

میری موت کے عوض جنت کے طلب گار ہیں
میری سماجی موت سے اب کسی کو کوئی فائدہ نہیں

حتٰی کہ مجھے بھی نہیں
مگر پلاٹ مافیا کے علاوہ ذخیرہ‌ اندوز اور سٹے باز

میری موت کے منتظر ہیں
اور

انہوں نے مجھے بے توقیر کر کے
سڑک پر میری خود سوزی کا راستہ کشادہ کر دیا ہے

جمہوریت اور انسانی حقوق کی بازیافت کے لیے مرنا میرا خواب تھا
مگر

بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے لیے اور ٹائم لگانے کے باعث
میرے پاس ایسی عیاشی کے لیے وقت نہیں

سو
میں بقائمی ہوش و حواس ایسے فرسودہ نظریات کو مسترد کرتا ہوں

رات دیر گئے
گھر لوٹتے ہوئے

راہ گیری موت مارے جانا میری ہرگز ترجیح نہیں
مگر اس میں حرج بھی کیا ہے

کہ اس کے عوض سرکاری خزانے سے پانچ لاکھ روپے ملتے ہیں
میں

زندہ رہنے کے امکانات سے تقریباً محروم کیا جا چکا ہوں
مگر نہ جانے کیوں

میں زندہ رہنا چاہتا ہوں