کون جانے کہ یہ خورشید ہے نا خوب کہ خوب
چاند اچھا کہ برا کون بتا سکتا ہے
خوش کہ نا خوش ہیں یہ شمعیں یہ ستارے یہ شفق
کون یہ پردۂ اسرار اٹھا سکتا ہے
ہاں یہ ممکن ہے شعاعیں ہوں ضرر کا باعث
کون کہتا ہے اجالوں سے کرو کسب زیاں
روشنی آگ سے نکلی ہے جلا سکتی ہے
بات اتنی بھی سمجھ سکتے نہیں ہم انساں
علم مزدور کو فن کار بنا دیتا ہے
علم منصور کو ہشیار بنا دیتا ہے
علم الفاظ کو تلوار بنا دیتا ہے
علم تنکے کو بھی پتوار بنا دیتا ہے
پاؤں کے چھالے کو رہوار بنا دیتا ہے
اک تہی دست کو سالار بنا دیتا ہے
روشنی گل نہ کرو رات ابھی باقی ہے
زیست سمجھی نہیں جو بات ابھی باقی ہے
خواہش چشمۂ ظلمات ابھی باقی ہے
پئے نیساں ہو جو برسات ابھی باقی ہے
علم ایک نور ہے یہ نور بکھر جانے دو
صبح عرفاں کو ذرا اور نکھر جانے دو
راہ ہستی کے خم و پیچ سنور جانے دو
نظم
علم
داؤد غازی