EN हिंदी
اپنی اپنی روشنی | شیح شیری
apni apni raushni

نظم

اپنی اپنی روشنی

ظہیر صدیقی

;

ویسے اس تاریک جنگل کے سفر کے قبل بھی
ہاتھ میں اس کے

یہی اک ٹمٹماتا کانپتا ننھا دیا تھا
کچھ تو شہرت کی ہوس نے

اور کچھ احمق بہی خواہوں نے
اس کی سادہ لوحی کو سزا دی

اس کے طفلانہ ارادہ کو ہوا دی
لا کے سرحد پر خدا حافظ کہا

اس کے خضاب آلودہ سر کو یہ سعادت دی
دھواں کھائی ہوئی

بد رنگ دستار قیادت دی
تو وہ سینہ پھلائے

اپنی دستار قیامت کو سنبھالے
کانپتے ننھے دیے کو

ایک مشعل کی طرح اونچا اٹھائے
چل پڑا تھا

غالباً وہ دو قدم ہی جا سکا ہوگا
کہ پیلی آندھیوں نے

دست لرزاں میں لرزتے اس دیے کو
نزع کی ہچکی عطا کی

اس پہ تیرا
چھین لی دستار اس کی

اس نے آغاز سفر کی ساری خوش فہمی
بکھرتی دیکھ کر

جب لوٹنا چاہا
تو یہ ممکن نہیں تھا

ہر طرف تاریکیاں تھیں
دفعتاً کچھ دور پیچھے

اس نے دیکھا
آسماں سے بات کرتی دھول کی دیوار

بڑھتی آ رہی ہے
اور کچھ قربت ہوئی تو اس نے دیکھا

وہ کئی تھے
ان کے ہاتھوں میں بھڑکتی مشعلیں تھیں

کاسۂ نمناک سے اس نے
غرض کی گندگی

جو اس کو فطرت میں ملی تھی
پونچھ ڈالی

اور فوراً غازۂ معصوم
یہ اس کی عادت بن چکی تھی

اپنے چہرے پر چڑھایا
ایک ہی مقصد تھا یعنی

دھول اڑاتے قافلے سے
ایک مشعل لے سکے وہ

غازۂ معصومیت پھر کام آیا
قافلہ والوں نے اس کو

ایک مشعل دے کے
اپنے ساتھ چلنے کو کہا

لیکن کہاں تک
وہ نہایت تیز رو اور یک قدم تھے

اس کے ناز پاؤں
سوکھی ہڈیوں کے زور پر کیا ساتھ دیتے

ایک قدم یا دو قدم
پھر تھک گیا وہ

رفتہ رفتہ
اس کی وہ مانگی ہوئی مشعل

خود اپنے رنگ و روغن کھا رہی تھی
اب فقط بھینچی ہوئی محتاط مٹھی میں

اندھیرے کی چھڑی تھی
باد و باراں تیز طوفاں

ذہن طفلک میں سفر کے قبل
ان دشواریوں کا

ایک ہلکا سا تصور بھی نہیں تھا
اب جو یہ برعکس صورت ہو گئی تھی

رو پڑا وہ
اس کی پسپائی میں لیکن حوصلہ تھا

دامن امید اب بھی ہاتھ میں تھا
دفعتاً اس نے یہ دیکھا

دھندلی گہری روشنیوں کے کئی ہالوں میں
کچھ بڑھتے قدم نزدیک ہوتے جا رہے تھے

ان کے ہونٹوں سے خموشی چھن رہی تھی
سست رو تھے

پھر بھی ان کی چال میں اک تمکنت تھی
اس نے سوچا

ان نئے لوگوں کی طرح تیز نہیں ہے
ان کی ہم راہی میں

قدموں کی نقاہت بے اثر ہے
اور منزل ایک سعیٔ مختصر ہے

اک نئی امید لے کر
پشت پر مردہ دیے تاریک مشعل کو چھپا کر

گفتگو میں مصلحت آمیز نرمی گھول کر
اس نے نئے لوگوں سے اک مشعل طلب کی

اف وہ کیسا قافلہ تھا
کس طلسماتی جہاں کے لوگ تھے وہ

اس قدر تاریک راہوں میں
بڑی ہی تمکنت سے چل رہے تھے

اور ہاتھوں میں کوئی مشعل نہیں تھی
روشنی تھی

ان کی آنکھوں کے دریچوں سے اتر کر
اپنے قدموں سے لپٹ کر چلنے والی

اپنی اپنی روشنی تھی
اس نے سوچا

ان کے قدموں سے لپٹ کر چلنے والی
دھیمی دھیمی روشنی کے عکس

کیا اس کے لیے کافی نہیں ہیں
آج بھی وہ

پشت پر مردہ دیا تاریک مشعل کو چھپائے
ان نئے لوگوں کے پیچھے

ان کے قدموں میں لرزتی روشنیوں کے سہارے
ٹھوکریں کھاتا سنبھلتا سوچتا ہے

روشنی تو خارجی شے ہے
دیا ہے

یا بھڑکتی مشعلیں ہیں
آخرش یہ روشنی

ان اجنبی لوگوں کی آنکھوں سے اتر کر
ان کے قدموں سے لپٹ کر

چلنے والی روشنی کیسی ہے
کیسی روشنی ہے