EN हिंदी
مجھ سے پوچھو | شیح شیری
mujhse puchho

نظم

مجھ سے پوچھو

مشتاق علی شاھد

;

میں ہر دور میں جنما
باتیں ہر یگ کی

دہرا سکتا ہوں
مجھ سے پوچھو

میں سقراط کے ہونٹوں پر تھا
زہر کا پیالہ

میں نے پیا تھا
اور سقراط مرا کب تھا

رام نے کب بن باس لیا تھا
وہ تو میں تھا

چودہ سال تو میں نے کاٹے
جنگل جنگل صحرا صحرا

میں بھٹکا تھا
اور لنکا تک

تم کو تو معلوم نہیں ہے
میں بھی نوح کی کشتی پر تھا

تم کیا جانو
وہ کشتی تو ڈوب گئی تھی

اس کشتی کا کوئی مسافر
کہاں بچا تھا

بس اک میں ہی بچ نکلا تھا
مجھ سے پوچھو

اور بہت سی باتیں
میں سمجھا سکتا ہوں

میں ہر دور میں جنما
میں ہر دور میں جنما

باتیں ہر یگ کی
دہرا سکتا ہوں