پھول پتے اور جھاڑیاں
گزرتے وقت کو روک لیتے ہیں
پگڈنڈیاں
گلیاں
پرانے مکان
آوازیں دینے لگتے ہیں
دھوپ چاندنی اور اندھیرا
پر نئے دوستوں کی طرح باتیں کرتے ہیں
آبائی قبرستانوں کی ہوا
ان لڑکیوں کی پیامبر بن جاتی ہے
جن سے لوگ ہمیشہ کے لیے محبت کرتے ہیں
بات کیے بغیر
چہروں اور ناموں میں فرق کرنے کی خواہش
آنکھ کی پتلی پر جم جاتی ہے
اور خوشبو ذائقے رنگ
رگوں میں سرایت کر جاتے ہیں
رکے ہوئے وقت کی طاقت
پلٹ کر دیکھنے کے دردناک عمل کو خوبصورت بنا دیتی ہے
اور زندگی کو
موت پر غالب کرتی ہے
نظم
نوستالجیا
زاہد مسعود