قمقمہ ہے کہ لب بام لیے بیٹھی ہے
تیرگی اپنی ہتھیلی پہ اجالے کی ڈلی
جس کو خود موج ہوا اوٹ کئے بیٹھی ہے
نقش حیرت بنی تکتی ہے جسے اندھی گلی
جیسے کچھ دور اندھیرے کی کسی ان جانی
شاخ پہ خندہ بہ لب غنچہ خاموشی ہو
رات کی گوش بر آواز فضا میں جیسے
نرم نرم آنچ کی جاگی ہوئی سرگوشی ہو
کاش یہ قمقمہ جگنو کی طرح اڑنے لگے
مجھ تک آ پہنچے تصور کی گھنی چھاؤں میں
میں چلوں راہ تخیل پہ تو پلکیں جھپکے
ٹمٹماتی ہوئی پرواز مرے پاؤں میں
جادۂ فکر کی امواج بڑھتا بڑھتا جاؤں
خود کو گھیرے سے ہوئے سپنوں کی حسیناؤں میں
اڑتے تلووں کے مدھر عکس سے جھلکاتا ہوا
ضو کے آئینے خیالات کے دریاؤں میں
میری منزل ہو کوئی من کا سنہرا ٹاپو
گھوموں جی بھر کے طلسمی سے کسی گاؤں میں
نظم
قمقمہ ۱
تخت سنگھ