EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

زاہد ڈار

;

کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے
اس کی چھاتیوں کے درمیان ایک سانپ رینگ رہا ہے

اس کی رانوں کے درمیان سفید پانی کا چشمہ ہے
میں پیاس سے مر رہا ہوں

لیکن میں اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا
میں ایک درخت کے اندر قید ہوں

کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے
میں اس کو دیکھ رہا ہوں

وہ ایک سانپ کو کھا گئی ہے
میری خواہشیں اس کے پیٹ میں ہیں

اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے
لوگ تالیاں بجا رہے ہیں

یہ تماشا ازل سے جاری ہے
میں انتظار کر رہا ہوں

جاؤ اسے ڈھونڈ کر لاؤ
موت میرے لیے نئی نہیں ہے

میں ہمیشہ مرتا رہا ہوں
لیکن میری زندگی ختم نہیں ہوئی

میری خواہشیں اس کے اندر رقص کر رہی ہیں
جاؤ مجھے ڈھونڈ کر لاؤ

درخت کے پتے گر رہے ہیں
ہوا چیخ رہی ہے

میں نے ایک عورت کو آسمان پر اڑتے ہوئے دیکھا ہے
کیا تم نے بھی کچھ دیکھا ہے

اگر تمہیں کچھ دکھائی دے تو مجھے بھی دکھانا
فی الحال تم خاموش رہو

تمہاری باتیں ریگستان کو سیراب نہیں کر سکتیں
خشک ریت میری پیاس نہیں بجھا سکتی

اس کی رانوں کے درمیان سفید پانی کا چشمہ ہے
سورج میرے سر کے اندر چمک رہا ہے

پاگل پن رقص کر رہا ہے
بادلوں نے اسے گھیر لیا ہے

میں محبت کے خواب دیکھ رہا ہوں
میں ایک واہمے کی آرزو میں مرتا ہوں

کیا تم نے اسے دیکھا ہے