اے پرندے تو ہے اپنی آگ میں جلتا ہوا
دور سے لیکن دھواں اٹھتا نظر آتا نہیں
ایسا لگتا ہے کہ ہیں شعلے فضا میں ہر طرف
آسماں نیلا مگر دھندلا نظر آتا نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں یہ سرد ہے کہ گرم ہے
تیرے دل کی آگ کی لو سخت ہے کہ نرم ہے
کاٹتی ہے دل کے شیشے کو یہ ہیرے کی طرح
جھلملاتی ہے سمندر میں جزیرے کی طرح
کشتیوں کے بادباں چلتے ہیں اس کو دیکھ کر
اور ستارے رات بھر جلتے ہیں اس کو دیکھ کر
پھول بھی شام و سحر ڈرتے نہیں اس آگ سے
رقص کی اپنے بناتے ہیں وہ لے اس راگ سے
اے پرندے میں کسی دن پاس تیرے آؤں گا
اور تری جلتی ہوئی اس آگ میں جل جاؤں گا
نظم
(36)
ذیشان ساحل