زندگی کتنی ہے عجیب و غریب
زندگی کیا ہے اک تماشا ہے
زندگی رہ گزار بے منزل
بے طلب بے حصول جینا ہے
ہیں فقط چند لوگ ہی مختار
اور باقی جو ہیں وہ بندے ہیں
کیا پھرے ہیں گلے میں لٹکائے
رنج و مظلومیت کے پھندے ہیں
پھر بھی جیتے ہیں کیا خبر کیا ہو
کچھ دوامی نہیں نظام کہن
گرچہ ہے یہ مقام درد و محن
کیا خبر منزل دگر کیا ہو
آج ہر چند ہیں بہ حال زبوں
کون جانے کہ کل مگر کیا ہو
نظم
جواز
داؤد غازی