EN हिंदी
(34) | شیح شیری
34

نظم

(34)

ذیشان ساحل

;

خدا گر ہمیں اک پرندہ بناتا
جہاں میں ہم اک آشیانہ بناتے

کسی سبز وادی میں اپنا نشیمن
یا صحن چمن کو ٹھکانہ بناتے

کبھی اڑتے بادل میں ہوتا بسیرا
کبھی ڈالتے کنج وحشت میں ڈیرا

کبھی دامن کوہ ہوتا ہمارا
کبھی بنتا گھر اک ندی کا کنارا

کبھی گیت گاتے گھٹاؤں کے نیچے
کبھی ہوتے پاگل ہواؤں کے پیچھے

فضاؤں میں ہم صبح سے شام کرتے
اندھیرے سے پہلے زمیں پر اترتے

کوئی گلستاں ملک ہوتا ہمارا
ہم اس کے لیے اک ترانہ بناتے

خدا گر ہمیں اک پرندہ بناتا
اسے ہم پرندے خدا نہ بناتے