اے ہم سفرو کیوں نہ یہیں شہر بسا لیں
اپنے ہی اصول اپنی ہی اقدار بنا لیں
وہ لوگ جنہوں نے مرے ہونٹوں کو سیا ہے
سوزن سے مری سوچ کا کانٹا بھی نکالیں
اس بزم سے اٹھے گا نہ شعلہ کوئی ہرگز
یارو چلو قندیل سے قندیل جلا لیں
ہر شہر میں ہیں فصل جنوں آنے کے چرچے
شوریدہ سرو آؤ گریبان سلا لیں
یوں ذہن پہ ہے خوف کے سایوں کا تسلط
ہم آئی ہوئی بات کو ہونٹوں میں دبا لیں
کہنے کو تو بازار میں ہم جنس گراں ہیں
عملاً ہمیں کوڑی پہ خریدار اٹھا لیں
بوجھ اپنا بھی ہم سے تو اٹھایا نہیں جاتا
اور آپ مصر آپ کا بھی بوجھ اٹھا لیں
شاید کوئی چنگاری سلگتی ہوئی مل جائے
آؤ تو ذرا راکھ کا یہ ڈھیر کھنگالیں
نظم
اے ہم سفرو کیوں نہ یہیں شہر بسا لیں
فخر زمان