EN हिंदी
انتظار کے بعد | شیح شیری
intizar ke baad

نظم

انتظار کے بعد

مشتاق علی شاھد

;

انگلیوں میں دبی ہوئی سگریٹ کا
ایک اور کش لینے سے پہلے میں نے

بالکنی میں جھانکا
وہ اب بھی نہیں آیا تھا

کمرے میں چند ساعت کے لئے
بے حس و حرکت کھڑا رہنا

عجیب سا لگا اور تب
میں نے سلگتی ہوئی سگریٹ کو

جس کے ابھی کئی اور کش لئے جا سکتے تھے
چھوٹی سی گول میز پر بری طرح سے مسل ڈالا

دایاں ہاتھ تیزی سے گھوما اور
کانچ کا خوب صورت گلاس میز سے اچھل کر

فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا
اور اس سے پہلے کہ میں

نوکیلی کرچیوں کو چننے کی چیشٹا میں
اپنے بوجھل شریر کو کرسی سے اٹھاتا

وہ اچانک دروازہ کھول کر
کمرے میں حاضر ہو گیا

پشیمانی کے قطرے
میری جبیں پر صاف جھلک اٹھے تھے

لیکن مجھے محسوس ہوا
کہ میں انہیں رومال میں جذب کر لینے کی جرأت بھی

کھو چکا تھا