وہ کیا نوا تھی
کہ جس کی لو سے
افق روشنی کے منظر سنور گئے تھے
بہار آثار لحن کیا تھا
کہ خشک شاخوں کے زرد چہرے
گلاب رنگوں سے دھل گئے تھے
کلی کلی کے گداز شانوں پر خوشبوؤں کے لطیف پرچم
نئے سویروں سے آشنائی کو کھل گئے تھے
وہی نوا ڈوبتی شبوں میں
اذان صبح نیاز بن کر
ہوا کے ہونٹوں پہ کھیلتی جب دلوں میں اتری
تو جسم کی سرحدوں کے اس پار منجمد تیرگی کی شاخوں پر
روشنی کے گلاب ابھرے
کرن کرن آفتاب ابھرے
نظم
۲۳ مارچ اذان صبح نیاز
اشرف جاوید