ہم جان چکے
کہ اس بند کمرے میں
ہماری سانسوں پر گھٹن زدہ فیصلے لکھے جاتے ہیں
ہماری آرزؤں کو بیچ کر دکھ خریدے جاتے ہیں
خوف کو نگہبانی کے راز بتائے جاتے ہیں
اور اناج کے نام پر بھوک تقسیم کی جاتی ہے
بند کمرے میں
جو کھیل کھیلے جاتے ہیں
ان میں ہماری ہار لکھی جاتی ہے
مگر۔۔۔
اب ہم نے جان لیا
کہ جب تک ہماری دستکوں کا طوفان
اس بند کمرے کو توڑ نہیں دیتا
اس کے اندر جاری وحشت ناک کھیل رک نہیں سکتا
نظم
(۲) پارلیمنٹ
منیر احمد فردوس