EN हिंदी
شریف زادہ | شیح شیری
sharif-zada

نظم

شریف زادہ

زبیر رضوی

;

سنو کل تمہیں ہم نے مدراس کیفے میں
اوباش لوگوں کے ہم راہ دیکھا

وہ سب لڑکیاں بد چلن تھیں جنہیں تم
سلیقے سے کافی کے کپ دے رہے تھے

بہت فحش اور مبتذل ناچ تھا وہ
کہ جس کے ریکارڈوں کی گھٹیا دھنوں پر

تھرکتی مچلتی ہوئی لڑکیوں نے
تمہیں اپنی باہوں کی جنت میں رکھا

بہت دکھ ہوا
تم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پہ لے کر

ان اوباش لوگوں اور ان لڑکیوں کے ہجوم طرب میں
گئی رت تک جشن صہبا منایا

بہت دکھ ہوا خاندانی شرافت
بزرگوں کی بانکی سجیلی وجاہت کو

تم نے سر عام یوں روند ڈالا
سلیقہ جو ہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو اپنے بزرگوں کی مانند تم بھی
گھروں میں کنیزوں سے پہلو سجاتے

پئے عشرت دل حویلی میں ہر شب
کبھی رقص ہوتا کبھی جام چلتے

کسی ماہ رخ پر دل و جاں لٹاتے
سلیقہ جو ہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو یوں خاندانی شرافت وجاہت
نہ مٹی میں ملتی نہ بدنام ہوتی