EN हिंदी
لا یخل | شیح شیری
la-yaKHul

نظم

لا یخل

تحسین فراقی

;

(۱)
مری خلوت کے ہالے میں تمہارا یہ طلسماتی بدن

اک نور میں ڈوبا ہوا بہتا ہوا دھارا
یہ مدھ ماتا یہ خود کو سر بسر بھولا ہوا

بے حد نرالا ان چھوا سایا
ہوا کے نرم سوئے سوئے لہجے کی طرح مس ہو کے

میری روح میں آتش کا بھڑکاتا ہوا سایا
یہ سایا روشنی ہی روشنی ہے سر سے پاؤں تک

یہ سایا زندگی ہی زندگی ہے سر سے پاؤں تک
یہ وصل تام کا لمحہ وہ لمحہ ہے

کہ جب خود وقت رک جاتا ہے
جیسے شام کو دریا بھی رک کر خود فراموشی کے گہرے سانس لیتے ہیں

۲
ادھر جب وقت کا سیال دھارا

ایک دو لمحوں کو رکتا ہے
نہ جانے کیوں مرے اندر لہو کا تیز تر ہو کر

حریم دل کی دیواروں سے اپنا سر پٹکتا ہے
یہ پیر روم کے مرقد پہ رقصاں

ان خدا آگاہ درویشوں کی صورت رقص کرتا ہے
جنہیں خود اپنے تن من کی کوئی سدھ بدھ نہیں رہتی

وہ سر تا پا فقط روح تام کی تمثیل لگتے ہیں
کسی ایسے ابد لمحے میں جسم و جاں کی اس وحدت کا کوئی نام تو ہوگا

سراپا رقص کی اس حالت بے نام کا انجام تو ہوگا
تمہی بولو کہ اس کا نام کیا انجام کیا ہے

ہاں تمہی بولو گرہ کھولو