ہم ایک ایسی وادی دریافت کر چکے
جہاں صرف دکھوں کی فصل کاشت ہوتی ہے
جنت کی بات کرنے والوں کے ہونٹ
خامشی کے دھاگے سے سی کر
انہیں سناٹوں کی جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے
محبت کے ماتھے پر ''نفرت'' لکھنے کی سیاہی
ہر سینے میں ڈال دی گئی ہے
دھرتی کے سینے پر خوشیاں سینچنے والوں کی آنکھیں
اب اپنے ہاتھ تلاشتی پھرتی ہیں
نفرت کے تیزاب سے ہم
ایک دوسرے کا چہرہ بگاڑنے پر تل چکے ہیں
ہماری معصومیت کے چہرے پر
خوف جالے بن چکا ہے
نظم
(۱) بے چہرگی
منیر احمد فردوس