خبر وحشت اثر تھی
اسے ایسے لگا
جیسے زمیں پاؤں کے نیچے سے سرکتی جا رہی ہے
طبق ساتوں کے ساتوں آسماں کے اس کے سر پر آ گرے ہیں
اک دھماکے سے
نظر کے سامنے حد نظر تک ایک کالی دھند کے
منظر شکن پردے
زمیں سے آسماں تک تن گئے ہیں
ہوا کے پاؤں میں من من کی زنجیریں پڑی ہیں
ادھر دل کو ٹٹولا تو لگا اسے
کہ جیسے آسماں کی وسعتوں میں کوئی طیارہ گھرا ہوا آندھیوں میں
اور گرداب ہوائی میں مسلسل پے بہ پے کھاتا ہو ہچکولے
ادھر چہرے کو دیکھا تو لگا ایسے
کہ جیسے اس کتاب زندگی سے
سارے حرفوں کی چمکتی روشنائی اڑ چکی ہو
خلش ایسے تھی سینے میں
کہ جیسے کوئی کانٹے دار جھاڑی پر مہین ململ کو بے دردی سے کھینچے
اور تار و تار کر ڈالے
لہو سارے بدن کا کھنچ کے آنکھوں کے شکستہ جام و مینا سے
ٹپکنا چاہتا تھا
اسے اس حال میں دیکھا تو آئینے چٹخ کر ریزہ ریزہ ہو گئے
اور آرزو کے اس بہشت آباد کی سب چیزیں
اپنے اپنے مرکز سے لگیں ہٹنے
فلک کو چومنے والے کلس اور کنگرے پل پل بھر میں مٹی چاٹتے تھے
اور دھرتی کی شکستہ جا بہ جا کٹ جانے والی
سرد ریکھاؤں میں اپنے ٹھوکریں کھاتے مقدر ڈھونڈتے تھے
درخت اپنی جگہ سے ہل گئے
اور ان کی شاخوں پر لدا سب بور
پھل بننے سے پہلے جھڑ گیا
غرض ہر شے پہ وحشت تھی
خبر ہی اس قدر وحشت اثر تھی
سنا ہے جب دلوں کی لہلہاتی کھیتیاں برباد ہوتی ہیں
تو ایسے زلزلے آیا ہی کرتے ہیں
نظم
خبر وحشت اثر تھی
تحسین فراقی