شاہد دہر کی تصویر بنانے والے
اپنی تصویر کی جانب بھی ذرا ایک نظر
اے ہر اک ذرے کی تقدیر بنانے والے
اپنی تقدیر کے خاکوں کو فراموش نہ کر
تیری تقدیر ہے آئینۂ تقدیر جہاں
خوب معلوم ہے تیرا غم تنہا مجھ کو
تجھ میں اٹھنے کے نشاں تجھ میں سنبھلنے کے نشاں
تیری صورت میں نظر آتا ہے فردا مجھ کو
منتشر ہو کے زمانے میں ہوا خوار و زبوں
ہو منظم تو قوی تجھ سا زمانے میں نہیں
ان گنت ہاتھ ترے جب بھی اٹھے ہیں مل کر
تیرے قدموں پہ جھکی آ کے چٹانوں کی جبیں
خالق نان جویں تو ہے زیاں تیری ہے
فکر کی بات نہیں سارا جہاں تیرا ہے
قوتیں تجھ میں جو ہیں ان کی خبر تجھ کو نہیں
جو عیاں ہے وہ ترا ہے جو ہے نہاں تیرا ہے
غم کو سینے میں دبا رکھا ہے تو نے لیکن
غم بڑی چیز ہے تو اس سے کوئی کام تو لے
تشنگی بڑھ کے کہیں تیرا گلا گھونٹ نہ دے
مے بھی مل جائے گی ساقی سے مگر جام تو لے
نظم
مزدور
داؤد غازی