یاس خیز صبحوں سے
بے سکون شاموں سے
بھاگنے کی کاوش نے
کتنی رہ گزاروں کے
پیچ و خم کے جلووں سے
آشنا کرایا ہے
در بدر پھرایا ہے
جانے کب یہ ہوش آیا
صبح و شام بے معنی
بے سکون و بے امید
پھر تو سلسلہ نکلا
لمحہ ہائے کاوش کا
چین کھو گیا دن کا
نیند اڑ گئی شب کی
جستجو کا یہ چکر
کھینچ لے گیا ہر پل
جانے کس طرف لیکن
ہر قدم ہوا احساس
میں گناہ کرتا ہوں
عمر کیوں گنواتا ہوں
کاوشوں کا کیا حاصل
ہر قدم سمیٹے ہیں
خار نا امیدی کے
ایک دن کا قصہ ہے
چلتے چلتے پہنچا ہوں
اک جگہ جو ویراں تھی
کچھ درخت پھیلے تھے
جا بہ جا پریشاں سے
اک درخت پر گدھ تھے
انتظار میں بیٹھے
اور مقبرے تھے کچھ
پر سکون تھا ماحول
دل پسند تھا بے حد
جانے کیوں یہ لگتا تھا
اپنی صبح شاموں سے
اپنی بے سکونی سے
اپنی نا امیدی سے
چھوٹنے کا وقت آیا
پے بہ پے ہر اک لمحہ
ہوش ہو رہے تھے غم
اور دل کو لگتا تھا
زیست وہم ہو جیسے
خواب یا کہ افسانہ
دفعتاً اٹھی اک چیخ
روح تک تڑپ اٹھی
چیخ جانے کس کی ہے
ہائے یہ تو میری ہے
اور برق کی صورت
میں وہاں سے پلٹا ہوں
اس خموش عالم سے
بے خودی کی دنیا سے
جب پلٹ کے دیکھا ہے
روح مسکراتی تھی
میری روح آوارہ
اور حسین لگتی تھی
نظم
روح آوارہ
داؤد غازی