پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
عجب وہ وقت تھا
چاروں طرف جسموں کی دلدل تھی
برہنہ مرد وزن
ریتیلے ساحل پر پڑے
اک دوسرے کو چومتے رہے
کسی لب پر نہ تھی حمد و ثنا
اور انگلیاں
تسبیح کے دانوں کو سعیٔ رائیگاں گنتیں
خدا برہم ہوا
اس نے سمندر کی تہوں میں آگ روشن کی
سمندر کھول کر لاوا بنا
اور ساحلوں کو کاٹ کر نکلا
ہر اک جانب سمندر ہی سمندر تھا
کوئی آدم نہ آدم زاد باقی تھا
بس اک کشتی تھی سطح آب پر
جس کو کوئی ساحل نہ ملتا تھا
وہ دن چالیسواں تھا
جب خدا نے مہربانی کی
سمندر کو سمیٹا
ساحلوں کی ریت چمکائی
وہ پہلی صبح تھی
جب سب کے ہونٹوں پر
خدا کی حمد تھی
تسبیح کے دانے چمکتے تھے
نظم
چالیسواں دن
زبیر رضوی