ظلمتوں میں جیتے ہیں، روشنی کے مارے ہیں
ایک ہی قبیلے کے چاند اور ستارے ہیں
رتجگوں کے ساتھی ہیں، اشک، آہٹیں، خوشبو
بس یہیں کہیں تو ہے یا بھرم ہمارے ہیں
آج تک تو رسماً بھی تو نے یہ نہیں پوچھا
ہم نے تیری فرقت میں کیسے دن گزارے ہیں
اس نے میرے پہلو میں جھانک کر نہیں دیکھا
چوٹ کتنی گہری ہے زخم کتنے سارے ہیں
ٹہنیوں کی زینت تھے سولیوں پہ لٹکے ہیں
خشک زرد پتے جو موسموں کے مارے ہیں
ہم نے اپنے پرکھوں کے احترام کی خاطر
فرض بھی نبھایا ہے، قرض بھی اتارے ہیں
میں تو اک مسافر ہوں میرا کام ہے چلنا
منزلیں تمہاری ہیں راستے تمہارے ہیں
دل سے طے تو ہو جائے ساتھ کس کے جانا ہے
راستے نکلنے کو یوں تو ڈھیر سارے ہیں
ہم نے کل زمانے کو روشنی دکھائی ہے
آج ہم زمانے کی روشنی کے مارے ہیں
غزل
ظلمتوں میں جیتے ہیں، روشنی کے مارے ہیں
خواجہ ساجد