ظلمتوں میں گو ٹھہرنے کو ٹھہر جاتے ہیں لوگ
اہل منزل کی نگاہوں سے اتر جاتے ہیں لوگ
کل تلک تو حسن کی معصومیت مشکوک تھی
اب خلوص عشق پر بھی چوٹ کر جاتے ہیں لوگ
راہ میں اب وہ در جاناں ہو یا دیر و حرم
سر اٹھائے بے نیازانہ گزر جاتے ہیں لوگ
زندگی کی بے ثباتی کا کوئی رونا نہیں
ہائے وہ حالات جب بے موت مر جاتے ہیں لوگ
شیخ صاحب ہم سیہ بختوں کا پیچھا چھوڑیئے
شام ہوتی ہے تو اپنے اپنے گھر جاتے ہیں لوگ

غزل
ظلمتوں میں گو ٹھہرنے کو ٹھہر جاتے ہیں لوگ
عیش برنی