ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
تاریکی حیات یکایک ابھر گئی
نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی
پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی
اظہار التفات کے بعد ان کی بے رخی
اک رنگ اور نقش تمنا میں بھر گئی
ذوق جنوں و جذبۂ بیباک کیا ملے
ویران ہو کے بھی مری دنیا سنور گئی
اب دور کارسازی وحشت نہیں رہا
اب آرزوئے لذت رقص شرر گئی
اک داغ بھی جبیں پہ میری آ گیا تو کیا
شوخی تو ان کے نقش قدم کی ابھر گئی
تارے سے جھلملاتے ہیں مژگان یار پر
شاید نگاہ یاس بھی کچھ کام کر گئی
تم نے تو اک کرم ہی کیا حال پوچھ کر
اب جو گزر گئی مرے دل پر گزر گئی
جلوے ہوئے جو عام تو تاب نظر نہ تھی
پردے پڑے ہوئے تھے جہاں تک نظر گئی
سارا قصور اس نگہ فتنہ جو کا تھا
لیکن بلا نگاہ تمنا کے سر گئی

غزل
ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
علی جواد زیدی