ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارہ جمال
مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب
اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے
گوہر کو عقد گردن خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے
دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست
بزم خیال مے کدۂ بے خروش ہے
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے
لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
غزل
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
مرزا غالب