ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
سر کو ٹکرانا ہے دیوار میں در ہونے تک
اب تو اس پھول کی نکہت سے مہکتی ہے حیات
زخم دل زخم تھا تہذیب نظر ہونے تک
دل ہی جلنے دو شب غم جو نہیں کوئی چراغ
کچھ اجالا تو رہے گھر میں سحر ہونے تک
غزل
ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
نوبہار صابر