زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور
صدیوں صدیوں میرا سفر
منزل منزل راہ گزر
کتنا مشکل کتنا کٹھن
جینے سے جینے کا ہنر
گاؤں میں آ کر شہر بسے
گاؤں بچارے جائیں کدھر
پھونکنے والے سوچا بھی
پھیلے گی یہ آگ کدھر
لاکھ طرح سے نام ترا
بیٹھا لکھوں کاغذ پر
چھوٹے چھوٹے ذہن کے لوگ
ہم سے ان کی بات نہ کر
پیٹ پہ پتھر باندھ نہ لے
ہاتھ میں سجتے ہیں پتھر
رات کے پیچھے رات چلے
خواب ہوا ہر خواب سحر
شب بھر تو آوارہ پھرے
لوٹ چلیں اب اپنے گھر
غزل
زلفیں سینہ ناف کمر
جاں نثاراختر