زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات
خود بہ خود ہوتا تھا جوں شانہ دل اپنا چاک رات
برگ گل شبنم سے تر مت جانیو اے باغباں
گل نے دامن سے کیے بلبل کے آنسو پاک رات
شمع روشن جوں کہ آتی ہے نظر فانوس میں
برقعہ میں تھا جلوہ گر وہ روئے آتش ناک رات
مغبچے کے چوکنے سے ہو گیا سارا خلل
تھے لگائے ورنہ رنداں دخت رز سے تاک رات
تو نے بھریاں شعلہ افشاں ایسی ہی آہیں رضاؔ
یار کے کوچے کے جل گئے سب خس و خاشاک رات
غزل
زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات
رضا عظیم آبادی