EN हिंदी
زلف گھٹا بن کر رہ جائے آنکھ کنول ہو جائے | شیح شیری
zulf ghaTa ban kar rah jae aankh kanwal ho jae

غزل

زلف گھٹا بن کر رہ جائے آنکھ کنول ہو جائے

قیصر الجعفری

;

زلف گھٹا بن کر رہ جائے آنکھ کنول ہو جائے
شاید ان کو پل بھر سوچیں اور غزل ہو جائے

جس دیپک کو ہاتھ لگا دو جلیں ہزاروں سال
جس کٹیا میں رات بتا دو تاج محل ہو جائے

کتنی یادیں آ جاتی ہیں دستک دیے بغیر
اب ایسی بھی کیا ویرانی گھر جنگل ہو جائے

تم آؤ تو پنکھ لگا کر اڑ جائے یہ شام
میلوں لمبی رات سمٹ کر پل دو پل ہو جائے