زلف گھٹا بن کر رہ جائے آنکھ کنول ہو جائے
شاید ان کو پل بھر سوچیں اور غزل ہو جائے
جس دیپک کو ہاتھ لگا دو جلیں ہزاروں سال
جس کٹیا میں رات بتا دو تاج محل ہو جائے
کتنی یادیں آ جاتی ہیں دستک دیے بغیر
اب ایسی بھی کیا ویرانی گھر جنگل ہو جائے
تم آؤ تو پنکھ لگا کر اڑ جائے یہ شام
میلوں لمبی رات سمٹ کر پل دو پل ہو جائے
غزل
زلف گھٹا بن کر رہ جائے آنکھ کنول ہو جائے
قیصر الجعفری