زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
سانپ کے منہ میں مجھے میری قضا لائی ہے
آج مے خانے پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ایک دنیا ہے کہ پینے کو امڈ آئی ہے
زلف شب رنگ کا ہے عکس یہ پیمانے میں
یا پری کوئی یہ شیشے میں اتر آئی ہے
تو بتا ناوک جاناں تری کیا ہے نیت
خنجر یار نے تو سر کی قسم کھائی ہے
حور و غلماں مری آنکھوں میں سمائیں کیوں کر
کس میں تیری سی ادا تیری سی رعنائی ہے
کچھ مداوا نہ ہوا تم سے مریض غم کا
کیا اسی برتے پہ دعوائے مسیحائی ہے
سرخی خون شہیداں کی جھلک ہے اس میں
دست قاتل پہ غضب رنگ حنا لائی ہے

غزل
زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے
شیر سنگھ ناز دہلوی