زور سے تھوڑی اسے پکارا کرنا ہے
ہم نے تو بس ایک اشارا کرنا ہے
بیٹا بیٹی کا حصہ کیوں کھا جائے
میں نے خود ان میں بٹوارا کرنا ہے
بہت زیادہ بولنے والی لڑکی کو
دیواروں کے ساتھ گزارا کرنا ہے
ورنہ اک دن لے ڈوبے گا وہ ہم کو
اس دریا سے جلد کنارہ کرنا ہے
یہ جو اسے ہر بات پہ غصہ آتا ہے
ہم نے اس کو پیار سے مارا کرنا ہے
سوکھے پیڑ کو جنگل کی ہریالی میں
مشکل اپنا آپ گوارا کرنا ہے
غزل
زور سے تھوڑی اسے پکارا کرنا ہے
زہرا قرار