EN हिंदी
زور بازو بھی ہے اور سامنے نخچیر بھی ہے | شیح شیری
zor-e-bazu bhi hai aur samne naKHchir bhi hai

غزل

زور بازو بھی ہے اور سامنے نخچیر بھی ہے

کلیم احمدآبادی

;

زور بازو بھی ہے اور سامنے نخچیر بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کہ ترکش میں کوئی تیر بھی ہے

کس طرح عشق مجازی کو حقیقی کر لوں
سامنے تو ہے بغل میں تری تصویر بھی ہے

کچھ نہیں ہے ترے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا
بات ناصح کی ہے لیکن خط تقدیر بھی ہے

چھیڑتی ہے مجھے آ آ کے مری آزادی
گو میں قیدی ہوں مرے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

میرے ہونے کا مرے ہوش کو احساس نہیں
ورنہ جو قطرۂ خوں ہے وہ شرر گیر بھی ہے

اہل دل کے لئے آزار ہے دنیا کو مفید
عقل اک ہوش ہے اور ہوش کی تعبیر بھی ہے

کوئی سمجھے کہ نہ سمجھے ترے اشعار کلیمؔ
زور غالبؔ بھی ہے اور دل کشیٔ میرؔ بھی ہے