زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
باقی جو ہیں سو قبر میں مردے بھرے ہوئے
مست الست قلزم ہستی میں آئے ہیں
مثل حباب اپنا پیالہ بھرے ہوئے
اللہ رے صفائے تن نازنین یار
موتی ہیں کوٹ کوٹ کے گویا بھرے ہوئے
دو دن سے پاؤں جو نہیں دبوائے یار نے
بیٹھے ہیں ہاتھ ہاتھ کے اوپر دھرے ہوئے
ان ابروؤں کے حلقہ میں وہ انکھڑیاں نہیں
دو طاق پر ہیں دو گل نرگس دھرے ہوئے
بعد فنا بھی آئے گی مجھ مست کو نہ نیند
بے خشت خم لحد میں سرہانے دھرے ہوئے
نکلیں جو اشک بے اثر آنکھوں سے کیا عجب
پیدا ہوئے ہیں طفل ہزاروں مرے ہوئے
لکھے گئے بیاضوں میں اشعار انتخاب
رائج رہے وہی کہ جو سکے کھرے ہوئے
الٹا صفوں کو تیغ نے ابروئے یار کی
تیر مژہ سے درہم و برہم پرے ہوئے
آتشؔ خدا نے چاہا تو دریائے عشق میں
کودے جو اب کی ہم تو ورے سے پرے ہوئے
غزل
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
حیدر علی آتش